حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃاللہ علیہ

  • Admin
  • Sep 28, 2021

حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃاللہ علیہ

 

اسلام میں روحانی زندگی کا آغاز کس طرح ہوا؟ یہ ایک بے حد اہم سوال ہے۔ اور اس کا جواب بھی بہت واضح ہے۔ اسلام میں روحانی زندگی کا آغاز حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے ساتھ ہی ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب ِاطہار حُبِ دنیا سے نفور تھے، دنیا کی چمک دمک سے بے نیاز تھے۔ جاہ  و  نمائش کا ان کی زندگی میں ذرا بھی دخل نہ تھا۔ وہ صرف خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ تھے اور زندگی کے ہر مرحلے پر اُسی سے لو لگاتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے زندہ رہتے تھے، اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے جہاد کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتے تھے۔ ان کا جینا اور مرنا دنیا کے لیے نہ تھا، صرف خدا کے لیے تھا۔ ان میں ایمان کی قوت اور یقین کی حرارت اس جذبہ نے پیدا کی تھی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ پر ایک نظر ڈالیے آپ کومعلوم ہوجائیگا کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آغاز اس طرح ہوا کہ آپ دن اور رات کا بڑا حصہ لوگوں سے الگ، دنیا سے دور غار حرا کی تنہائیوں میں بسر کرتے تھے۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے  کہ ابھی آپ   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی لیکن روحانی زندگی کا دور شروع ہوگیا تھا۔ اور اگر آپ صحابہ کرام کی سیرت پر ذرا نظر ڈالیے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان ذالنورین، علی المرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سب صحابہ کرام، محبوب مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو اپنی منزل و مقصود بنا چکے تھے۔

ان حضرات کی سیرت ہمیں بتارہی ہے کہ ان عاشقوں کے سینے میں جو جذبہ تھا، جو محبت تھی، جو شوق تھا اس کی یہ ابتدا تھی کہ اپنی جان، مال، اولاد محبوب کے نام پر قربان کرنے کے لیے صرف اشارہ کے منتظر تھے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول و فعل پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔

اسی اسلام کے پیغام کو انسان ذات تک پہنچانے کے لیے اولیاء اللہ، ابدال، اخیار، علماء کرام آتے رہیں گے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے۔

حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محبوب پیغام انسانی ذات تک جن ہستیوں نے پہنچایا وہ سب بڑے شان والے ہیں، لیکن جس عظیم شخصیت کے متعلق بیان کرنا چاہتے ہیں وہ ولی کامل حضرت ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہے۔ حقیقت و طریقت کا سرچشمہ،فیوض و برکات کا منبع و مخزن،اکابر مشائخ اوراولیائے کرام میں مشہو رشخصیت’ حضرت "علی بن احمد بن جعفربن سلمان" جن کی کنیت ابو الحسن ہے ۔اس مرد قلندر کی ابھی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس وقت کے بڑے بڑے اولیاء کرام پیش گوئیاں کرتے تھے کہ ابھی ایک ایسا نوری شخص آنے والا ہے جس کی قدر و منزلت ہم سے کئی مرتبہ زیادہ ہوگی۔

آپؒ کو اویسی طریقہ پر حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے باطنی فیض پہنچا اور انہی سے آپؒ کی روحانی تر بیت ہوئی۔انہی کے فیض کو آپ ؒنے تمام جہاں میں عام کیا۔ لیکن آپ ؒکی نسبت بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ تک چار واسطوں سے مستند بھی ہے ۔کہ آپؒ کی نسبت’حضرت ابومظفر موسیٰ طوسی‘سے اور ان کی’ حضرت خواجہ اعرابی بایزید عشقی‘ سے اور ان کی’حضرت خواجہ محمد مغربی ‘سے اور ان کی ’سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی‘ رحمۃ اللہ علیہم سے نسبت ہے ۔

سلوک و احسان میں آپ ؒنے وہ مقبولیت و محبوبیت پائی ہے جو بہت کم کسی کے نصیب میں آئی ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ کے شجرہ طریقت میں آپؒ کا نام بہت روشن ہے۔ بچپن سے ہی اولیاء اللہ سے قلبی محبت، علم دین سے گہری وابستگی اور سلوک و احسان سے بے حد شغف تھا۔

حضرت بایزید بسطامی جو اپنے وقت کے تمام اولیاء کرام میں نمایاں تھے اور آپ ؒکے متعلق حضرت جنید بغدادی ؒکا قول ہے کہ ”حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو اولیاء کرام میں وہی اعزاز ہے جو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ملائکہ میں ہے۔ اور مقام توحید میں تمام بزرگوں کی انتہا آپ ؒکی ابتدا ہے۔“

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا دستور تھا کہ سال میں ایک مرتبہ مزارات شہداء کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ خرقان ایران کے شہر بسطام کا نواحی علاقہ ہے ۔  جب خرقان کی پاک سرزمین پر اپنے قدم رکھتے تو فضا میں منہ اوپر اٹھا کر سانس کھینچتے جیسے کوئی خوشبو سونگھنے کے لیے سانس کھینچتا ہے۔ جب بھی خرقان میں آتے اسی طرح کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مرید نے پوچھا کہ ”آپ کو کس چیز کی خوشبو آرہی ہے۔ آپ کسی چیز کی خوشبو سونگھتے ہیں۔ ہمیں تو کسی چیز کی خوشبو نہیں آرہی ہے۔

آپ ؒنے فرمایا "مجھے اس سرزمین ِخرقان سے ایک مرد ِحق کی خوشبو آرہی ہے۔"(نظم مثنوی)

بعد چندیں سال می زاید شہے

می زند بر آسمان خود گہے

کچھ سال بعد ایک بادشاہ پیدا ہوگا جس کی پرواز آسمان پر ہوگی۔

رویش از گلزار حق گلگوں بود

از من واندر مکان افزوں بود

اس کا چہرہ گلزار حق سے پھول کی طرح ہوگا اور وہ مجھ سے مرتبہ و مکاں میں زیادہ ہوگا۔

چیست نامش؟ گفت نامش بوالحسن

حلیہ اش واگفت ابرو و ذقن

اس کا نام ابوالحسن ہوگا اور اس کا ابرو اور ٹھوڑی تمام حسین ہوگی۔

یہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا خلاصہ تھا کہ اِس سرزمین ِخرقان سے مرد قلندر پیدا ہوگا جس کا نام ابوالحسن خرقانی ہوگا اور مجھ سے مرتبہ میں کئی گنا زیادہ ہوگااور وہ کاشتکاری کرے گا جس کے ذریعے اپنے اہل و عیال کی رزق حلال سے پرورش کرے گا۔

ولادت :

حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش  حضرت با یزید رحمۃاللہ علیہ  کی وفات کے بعد 352 ہجری  963ء میں ہوئی ۔اور حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی تقریباً بیس سال تک بعد نماز عشاء روزانہ حضرت بایزید بسطامیؒ کے مزار اقدس پر پہنچ کر یہ دعا کرتے کہ ”یا اللہ جو مرتبہ تونےحضرت  بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو عطا کیا ہے وہی مجھے بھی عطا فرمادے“ اس دعا کے بعد خرقان واپس آکر نماز فجر ادا کرتے، اور آپؒ کے ادب کا یہ عالم تھا کہ بسطام سے اس نیت سے الٹے پاؤں واپس ہوتے کہ کہیں حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی مزار کی بے ادبی نہ ہوجائے۔ اسی طرح بارہ سال گذر گئے لیکن اپنے معمول کو نہیں چھوڑا۔ ایک رات آپؒ نے حضرت بایزید بسطامی کی مزار سے آواز سنی کہ

 اے ابوالحسن! اب تیرا بھی دور آگیا۔ خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒنے عرض کیا ”میں تو قطعی اُمی ہوں اُمی ہونے کی وجہ سے علم شرعیہ سے ناواقف ہوں اس لیے میری ہمت افزائی فرمائیے۔“ ندا آئی کہ ”مجھے جو کچھ مرتبہ حاصل ہوا ہے وہ صرف تمہاری بدولت حاصل ہوا ہے۔“ خواجہ ابو الحسن خرقانی ؒنے جواب دیا ”آپؒ تو مجھ سے کئی سال پہلے رخصت ہوچکے ہیں“ قبر سے آواز آئی کہ ”یہ قول تمہارا درست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی میں سرزمین خرقان سے گذرتا تھا تو اس سرزمین پر آسمان تک نور ہی نور نظر آتا تھا اور میں اپنی ایک ضرورت کے تحت تیس سال تک دعا کرتا رہا لیکن قبول نہ ہوئی اور مجھ کو یہ حکم دیا گیا کہ ”تو اس نور کو ہماری بارگاہ میں شفیع بناکر پیش کر تو تمہاری دعا قبول کرلی جائے گی۔“ چنانچہ اس حکم پر عمل ہونے سے دعا قبول ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد جب  حضرت ابوالحسن خرقانیؒ خرقان واپس ہوئے تو صرف 24 یوم میں مکمل قرآن کریم ختم کرلیا۔ لیکن بعض روایات میں ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے ندا آئی کہ سورۃ فاتحہ سے شروع کرو اور جب آپؒ نے شروع کی تو خرقان پہنچنے تک پورا قرآن ختم کرلیا۔

چند واقعات :

ایک مرتبہ آپ ؒاپنے باغ کی کھدائی کر رہے تھے تو وہاں سے چاندی برآمد ہوئی تو آپؒ نے اس جگہ کو بند کردیا اور دوسری جگہ سے کھدائی شروع کردی تو وہاں سے سونا برآمد ہوا پھر تیسری جگہ سے مرویدار ظاہر ہوا اور چوتھی جگہ سے جواہرات برآمد ہوئے۔ لیکن آپؒ نے کسی کو بھی ہاتھ نہیں لگایا اور فرمایا کہ ”ابوالحسن ان چیزوں پر فریفتہ نہیں ہوسکتا یہ تو کیا اگر دین و دنیا بھی مہیا ہوجائیں تب بھی وہ انحراف نہیں کرسکتا۔“ ہل چلاتے وقت جب نماز کا وقت آجاتا تو بیلوں کو چھوڑکر نماز ادا کرتے اور جب نماز پڑھ کر کھیت پر پہنچتے تو زمیں تیار ملتی۔

2۔ 

ایک مرتبہ شیخ المشائخ حضرت ابوالعمر ابوالعباسؒ نے آپؒ سے کہا کہ ”چلو میں اور تم درخت پر چڑھ کر چھلانگ لگائیں۔“ آپؒ نے فرمایا کہ چلئے میں اور آپ فردوس و جہنم سے بے نیاز ہوکر خدا تعالیٰ کا دست کرم پکڑ کر چھلانگ لگائیں۔ پھر ایک مرتبہ شیخ المشائخ نے پانی میں ہاتھ ڈال کر زندہ مچھلی پکڑ کر آپ ؒکے سامنے رکھ دی۔ اس کے جواب میں خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒنے تنور میں ہاتھ ڈال کر زندہ مچھلی آپ کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ”آگ میں سے زندہ مچھلی پکڑ کر نکالنا "پانی میں سے مچھلی نکالنے سے کہیں زیادہ معنی خیز ہے۔

شیخ المشائخ فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے خوف کی وجہ سے مجھے بیس سال تک نیند نہیں آئی اور جس مقام پر میں پہنچتا ہوں انہیں اپنے سے چار قدم آگے ہی پاتا ہوں۔ اور اس مرتبہ اس کی کوشش کی کہ کسی طرح میں ان سے قبل حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر پہنچ جاؤں لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو وہ طاقت عطا کی ہے کہ تین میل کا راستہ لمحہ بھر میں طے کرکے بسطام پہنچ جاتا ہے۔

ایک مرتبہ کوئی جماعت کسی مشکل راستے پر سفر کرنا چاہتی تھی، لوگوں نے آپؒ سے عرض کیا کہ جب کوئی مصیبت پیش آئے تو ہم کیا کریں دعا بتادیجیے۔ آپؒ نے فرمایا جب کوئی مصیبت آئے تو میرا نام پکارنا۔ لیکن لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور اپنا سفر شروع کردیا۔ راستے میں ان لوگوں کو ڈاکوؤں نے گھیرلیا۔ ایک شخص نے اپنے دل میں حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃاللہ علیہ  کا نام لیا جس کے نتیجے میں وہ شخص اپنے مال اسباب سمیت لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگیا یہ دیکھ کر ڈاکوؤں کو بہت تعجب ہوا مگر جن لوگوں نے آپؒ کا نام نہیں لیا وہ سب لٹ گئے۔ پھر ڈاکوؤں کی واپسی کے بعد وہ شخص سب کی نظروں کے سامنے آگیا۔ اور جب اس شخص سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں غائب ہوگیا تھا تو اس نے کہا میں نے سچے دل سے شیخ کو یاد کیا اور حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃاللہ علیہ  نے اپنی قدرت سے مجھے سب کی نگاہوں سے چھپادیا۔ جب یہ واقعہ آپ ؒکے سامنے بیان کیا گیا تو آپؒ نے فرمایا تم لوگ خدا تعالیٰ کو فقط زبان سے یاد کرتے ہو لیکن میں اللہ تعالیٰ کو خلوص قلب سے یاد کرتا ہوں اور جو مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے لیے خدا تعالیٰ کو دل سے یاد کروں گا۔

ارشادات :

آپؒ فرماتے تھے نماز ہر کوئی پڑھتا ہے لیکن مرد وہ ہے جس کے لیے کراما ًکاتبین ساٹھ سال تک کوئی برائی نہ لکھ سکیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے شرمندہ ہوجائے۔

آپؒ فرماتے تھے چالیس برس ہوگئے ہیں میں نے اپنے لیے روٹی تیار نہیں کی ہے لیکن مہمانوں کے لیے تیار کرتا ہوں۔

آپؒ نے فرمایا ستر برس ہوگئے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کا بن گیا ہوں اور کبھی نفس کی مراد پوری نہیں کی۔

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ 2010ء جماعت اصلاح المسلمین

ارشادات :

آپ ؒطریقت اور حقیقت کا سر چشمہ فیوض و معرفت کا مخزن و منبع تھے۔آپؒ کی عظمت اور بزرگی مسلّمہ تھی۔

حضرت ابو الحسن خرقانی رح علیہ فرماتے ہیں کہ:

حضور اکرم صلّی اللہُ علیہ و آلہ وسلم کے مدارج اور مغفرتِ الٰہی کی انتہا مجھے آج تک معلوم نہ ھو سکی۔فرمایا کہ اہل اللہ وہ ہیں جو دنیا سے اس طرح علیحدہ ہو جائیں کہ اہلِ دنیا کو پتہ بھی نہ چل سکے، کیونکہ مخلوق سے وابستگی میں مخلوق اُن سے آگاہ رہےگی۔

فرمایا کہ اولیاء اللہ اپنے مراتب کے اعتبار سے مخلوق سے ہمکلام نہیں ہوتے بلکہ مخلوق کے مراتب کے اعتبار سے گفتگو کرتے ہیں، کیونکہ وہ ان کے مراتب کی گفتگو نہیں سمجھ سکتے۔

فرمایا کہ جو لوگ کچھ نہ جاننے کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ جانتے ہیں وہ درحقیقت کچھ بھی نہیں جانتے اور جب یہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں جانتے تو اس وقت اللہ تعالیٰ ہر شئے سے انہیں واقف کر دیتا ہے اور معرفت کے انتہائی مدارج ان کو عطا فرماتا ہے۔

(ماخوز از تذکرہ الاولیاء)

سلطان محمود غزنوی کی ملاقات :

        مشہور مسلم حکمران سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ آپؒ کے بڑے عقیدت مند تھے۔جب پہلی بار سلطان محمود غزنوی نے آپؒ کا شہرہ سنا اور خرقان پہنچ کر اپنے قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ حضور میرے دربار میں ملاقات کےلیے تشریف لائیں  تو بڑی مہربانی ہو گی ۔لیکن آپ ؒنے انکار کر دیا ۔ جس کے بعد سلطان محمودغزنوی نے اپنا شاہی لباس  اپنے غلام ایاز کو پہنایا خودایاز کے کپڑے پہن لئے۔دس لونڈیوں کو غلاموں کا لباس پہنا کر آپؒ کے امتحان کی غرض سے خانقاہ کا رخ کیا۔سب نے حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپؒ نے سلام کا جواب دیا لیکن آپ تعظیم کے لیے نہ اٹھے۔ آپؒ نے سلطان کی طرف توجہ کی اور ایاز کی طرف مطلق نگاہ نہ کی ۔آپ ؒنے ارشاد فرمایا یہ سب کچھ جال ہے۔سلطان نے کہا ہاں یہ جال ہے مگر اس کا پرندہ آپؒ نہیں ہیں ۔پھر آپ ؒنے سلطان محمود کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ۔آگے آؤ۔ تم مقدم ہو۔پس سلطان محمود بیٹھ گیا اور عرض کی کہ مجھے کچھ ارشاد فرمائیے۔آپؒ نے فرمایا پہلے نامحرموں کو نکال دو۔ سلطان نے اشارہ کیا اور وہ لونڈیاں باہر نکل گیئں۔سلطان محمود نے آپ ؒسے فرمائش کی کہ مجھے حضرت با یزید بسطامی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی کوئی بات سنایئے۔ آپ ؒنے فرمایا حضرت بایزید  رحمتہ  اللہ علیہ   کا قول تھا  "جس نے میری زیارت کر لی اس کو بدبختی سے نجات مل گئی"۔اس پر محمود نے پوچھا ،کیا ان کا مرتبہ حضرت محمد ﷺ سے بھی زیادہ ہے۔اس لئےکہ حضورﷺ کوابوجہل اورابولہب جیسےمنکرین نےبھی دیکھاپھربھی ان کی بدبختی دورنہ ہوسکی۔ آپؒ نےفرمایاکہ اےمحمود!ادب کوملحوظ خاطررکھ اوراپنی بساط سےباہرپاؤں نہ رکھ کیونکہ حضرت محمدﷺ  کوخلفائےراشدین اوردیگرصحابہؓ کےعلاوہ کسی نےنہیں دیکھاجس کی دلیل قرآن پاک کی یہ آیت مبارک ہے۔

اس کے بعدآپؒ نےسورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۱۹۸کاکچھ حصہ تلاوت فرمایا جس کاترجمہ درج ذیل ہے۔

" اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔"

یہ سن کرسلطان بہت محظوظ ہوا۔پھرآپؒ سےکہنےلگاکہ مجھےکچھ نصیحت فرمائیے۔آپؒ نےفرمایاچارچیزیں اختیارکرو ۱۔پرہیزگاری۔

۲۔باجماعت نمازاداکرتےرہو۔

۳۔سخاوت کواپناشعاربنالو۔

۴۔خلقِ خداپرشفقت کواپناشعاربنالو۔

پھرسلطان محمودنےعرض کی کہ حضور میرےلئےدعافرمائیں۔ حضرت ابوالحسن خرقانی  رحمتہ  اللہ علیہ   نےفرمایامیں پانچوں نمازوں میں دعاکرتاہوں کہ"یااللہ مومنین و مومنات کے گناہ بخش دے" سلطان نے کہامیرےواسطےخاص دعاکیجیے۔ آپ   رحمتہ  اللہ علیہ   نےفرمایااےمحمودےتیری عاقبت محمودہو۔

         سلطان محمود غزنوی نےاس کےبعدآپؒ کی خدمت میں اشرفیوں کاایک توڑا پیش کیا۔  آپ رحمتہ  اللہ  علیہ    نے جَوکی روٹی اس کےآگےرکھ دی اورکہاکھاؤ۔سلطان چباتاتھالیکن حلق سےنہ اترتی تھی۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ  نے  فرمایا  کیا  تمہاراگلاپکڑتی ہے؟ سلطان نےکہاہاں!۔آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ  نےفرمایااسی طرح تمہارااشرفیوں کاتوڑابھی میر  ا گلاپکڑتاہے،اِسےواپس لےجاؤکیونکہ میں دنیاوی مال کوطلاق دےچکاہوں۔سلطان کےبے  حد  اصرار  کے باوجود آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے  ا س میں سےکچھ نہ لیا۔پھرسلطان محمودنےخواہش کی کہ مجھ کوبطورتبرک کچھ چیزعطافرمائیں۔ اس پرآپ  رحمتہ اللہ  علیہ   نےسلطان کواپناپیراہن دےدیا۔

        جب عقیدت و محبت سے سرشار ہوکر اور تبرک کے طور پر پیراہن مبارک لیکر ادب سے جانے کے لیے اٹھا تو حضرت ابوالحسن خرقانی  رحمتہ  اللہ علیہ اُس کی تعظیم کے لیے اٹھے اور سلطان کے دریافت کرنے پر حضرت ابوالحسن خرقانی  رحمتہ  اللہ علیہ   نےفرمایاجب تم آئےتھےتواس وقت تمہارےاندرشاہی تکبرموجودتھااورمیراامتحان لینےآئےتھےلیکن اب تم انکساراوردرویشی کی حالت میں واپس جارہےہواورخورشیدفقرتمہاری پیشانی پررخشندہ ہے۔اس کےبعدسلطان رخصت ہوگیا۔

          کہتے ہیں کہ جب سومنات پر چڑھائی کے وقت سلطان غنیم کی بے پناہ قوت کی وجہ سے شکست کھانے لگا تو اضطراب کی حالت میں حضرت ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ کا پیراہن مبارک ہاتھ میں لیکر بارگاہ الٰہی میں یوں ملتجی ہوا:

الٰہی بآبروئے ایں خرقہ بریں کفار ظفردہ

ہرچہ ازینجا غنیمت بگیرم بدرویشاں بدہم

ترجمہ: خدایا اس خرقہ کی آبرو کے صدقے میں مجھے ان کافروں پر فتح عطا کر، مجھے یہاں سے جو مال غنیمت ملے گا درویشوں کو دیدوں گا۔

      جب محمودغنیم کےمقابلےمیں صف آراہواتوغنیم کےآپس میں باہمی اختلافات شروع ہوگئےاورانہوں نےایک دوسرےکوتہہ تیغ کرناشروع کردیا۔ اس طرح لشکراسلام کوفتح حاصل ہوئی۔

              رات کو محمودغزنوی نے خواب میں حضرت ابوالحسن خرقانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کودیکھا۔آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   فرما رہے ہیں"اےمحمودتو نےہمارےخِرقاکی آبرو ضائع کردی اگر تو اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعاکرتاکہ سارےکفارمسلمان ہوجائیں تو بفضل خداسب مسلمان ہو جاتے۔

سلطان محمود غزنوی جب فوت ہوئے توکسی نے خواب میں دیکھا کہ سلطان بادشاہوں کی طرح جنت میں سیر کر رہا ہے، پوچھا کیا گزری ؟ سلطان نے جواب دیا کہ میں جب خانقاہ خرقان میں خواجہ ابو الحسن خرقانیؒ کے پاس حاضر ہوا تو وہاں کے درویش خانقاہ کی صفائی میں مصروف تھے، مٹی اڑ رہی تھی، جب میں وہاں سے گزرا تو اس نیت سے مٹی کو منہ سے نہ ہٹایا کہ اللہ والوں کی خانقاہ کی بابرکت مٹی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا تو نے میرے ولی کی خانقاہ کی مٹی کی قدر کی اس لیے اس کی برکت سے میں تیرے چہرے کو جہنم کی آگ سے محفوظ کرتا ہوں۔

               ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ  فرماتے ہیں کہ جب میں ولایت خرقان میں داخل ہوا  تو اس وقت مجھ پر حضرت ابوالحسن   رحمتہ  اللہ علیہ   کا خوف اس قدر طاری تھا  کہ بات کرنے کی بھی سکت نہیں تھی جس وجہ سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ شائد مجھے ولایت سے محروم کر دیا گیا ہے۔

         ایک بار آپؒ کے ایک مرید نے  کوہ ِلبنان جا کر قطب عالم سے ملاقات کی اجازت طلب کی تو  آپ رحمتہ  اللہ  علیہ   نے نہ صرف اسے جانے کی اجازت دے دی بلکہ راستے کے اخراجات کے لئے اجرت بھی دے دی۔جب آپؒ کا مرید کوہ ِلبنان پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ ایک جنازہ رکھا ہوا ہے ۔تمام لوگ کسی کے منتظر ہیں ۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہیں کس کا انتظار ہے تو انہوں نے کہا کہ پانچوں وقت نماز پڑھانے کے لیے قطب العالم تشریف لاتے ہیں۔ہمیں انہی کا انتظار ہے۔یہ سن کر اُسے بے حد خوشی ہوئی کہ بہت جلد قطب العالم سے ملاقات ہو جائے گی۔

 کچھ ہی دیر بعد لوگوں نے صفیں قائم لیں اور نماز جنازہ شروع ہو گئی۔جب اس نے غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ نماز جنازہ کے امام خود اس کے مرشد حضرت ابو الحسن  رحمتہ  اللہ  علیہ   ہیں۔یہ دیکھ کر وہ خوف کے مارے بیہوش ہو گیا ۔جب ہوش آنے کے بعد دیکھا تو لوگ جنازے کو دفن کر چکے تھے اور قطب العالم جا چکے تھے۔اس نے لوگوں سے پوچھا کہ قطب العالم اب کب تشریف لائیں گے۔لوگوں نے بتایا کہ قطب العالم حضرت ابوالحسن   رحمتہ  اللہ  علیہ   اب نماز کے وقت پھر یہاں تشریف لائیں گے ۔چنانچہ وہ مرید انتظار میں وہیں رک گیا۔جب آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   دوبارہ تشریف لائے  اور نماز پڑھائی۔ جب آپؒ نماز پڑھ چکے تو مرید نے بڑھ کر سلام کر کے دامن تھام لیا۔لیکن شدتِ خوف کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ نکلا۔آپ ؒنے اسے واپس اپنے ہمراہ لے جاتے ہوئے فرمایا کہ جو تو  نے یہاں دیکھا ہے اس کوہماری زندگی میں کسی کے سامنے نہ ظاہر کرنا۔

 آپؒ سماع بالکل نہیں سنتے تھے لیکن جب حضرت ابو سعید  رحمتہ  اللہ  علیہ   آپؒؒؒ کی زیارت کے لئے آئے تو کھانے سے فارغ ہو نے کےبعد آپؒ سے اجازت طلب کی کہ قوال کچھ گائیں ۔آپ ؒنے فرمایا کہ ہمیں سماع کی بالکل رغبت نہیں لیکن آپ کی دل جوئی کے لیے سن لیتے ہیں۔قوالوں نے ایک شعر پڑھا  تو شیخ ابوسعید   رحمتہ  اللہ  علیہ   نے کہا کہ اے شیخ! اب وقت ہے کہ آپ اٹھیں ۔ آپؒ اٹھے اور اپنی آستین کو تین بارحرکت دی اور سات مرتبہ قدم مبارک زمین پر مارا۔خانقاہ  کی تمام دیواریں آپؒ کی موافقت میں  ہلنے لگیں ۔شیخ ابو سعید   رحمتہ  اللہ  علیہ   نے کہا  ! اے شیخ! اب بس کیجیے ورنہ خانقاہ کی تمام دیواریں خراب ہو جائیں گیں اور قسم ہے خداوند ذوالجلال کی  کہ زمین وآسمان بھی آپ ؒکی موافقت میں رقص کرنے لگیں۔اس وقت آپؒ نے فرمایا کہ سماع صرف اسی کے لیے جائز ہے جس کو آسمان سےلے کر عرش تک اور زمین سے تحت الثریٰ تک کشادگی نظر آتی ہو۔پھر لوگوں سے ارشاد کیا کہ اگرتم سےکوئی دریافت کرے کہ رقص کیوں کرتے ہو تو جواب میں کہہ دینا کہ گذشتہ بزرگوں کی اتباع میں جو ہو کر گذرے ہیں۔

 حضرت شیخ ابوالحسن رحمتہ اللہ علیہ کے توجہ اِلی اللہ اور وصول کا یہ عالم تھا کہ فرماتے تھے تیس سال ہوئے ہیں سوائے حق تعالیٰ کے اور کوئی خیال میرے دل میں نہیں گذرا۔چالیس سال تک آپ نے سر کے نیچے تکیہ نہیں رکھا۔اور صبح کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی۔

  ایک بزرگ کا واقعہ  :

 شہر طالقان سے ایک فقیرخرقان کو حضرت شیخ ابوالحسن ؒکی شہرت سن کرگیا ۔ بڑےپہاڑ اور جنگلوں کو پار کرکے حضرت شیخ ؒکو دیکھنے کے لیےحاضر ہوا۔ جب منزلِ مقصود تک پہنچا تو حضرت کا مکان ڈھونڈ کر پہنچا۔ بڑے عجز و نیاز کے ساتھ اس نے کنڈی کھٹکھٹائی تو ایک عورت نے دروازے سے باہر سرنکالا اور پوچھا کہ آپ کس کو بلاتے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ میں حضرت شاہ! ابوالحسنؒ کی قدم بوسی کوحاضر ہوا ہوں۔ اس عورت نے ایک فرمائشی قہقہہ لگایا اور کہا کہ اس ڈاڑھی پر آخ تھو ہے۔ اتنا بڑا سفر کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔ کیا تجھےاپنے وطن میں کوئی اور کام نہ تھا۔ یا تودیوانہ ہے یا غالباً شیطان نے تجھے بہکایا ہے۔ الغرض اس عورت نے بہت سی نامناسب باتیں کہیں ،جن کو میں یہاں بیان نہیں کرسکتا۔ اُس کی آوازوں سے وہ مرید بڑے رنج اور پریشانی میں پڑ گیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، مگر پھر پوچھا کہ خیر یہ تو سب سہی مگر وہ بادشاہ ہیں کہاں ؟ اس عورت نے کہا کہ وہ دھوکے باز نرا بہروپیا، بے وقوفوں کا جال اور گمراہی کی کمند ہے اگر تو اس سے نہ ملے اور صحیح سلامت واپس ہوجائے تو بہتر ہے کہیں تو بھی اس کے چکّر میں نہ پھنس جائے۔ ایسا بڑبولا، خوشامدی اور مفت خورا ہے کہ سارے ملک میں شہرت ہوگئی ہے۔ اس قوم کے لوگ سبطی اور گوسالہ پرست ہیں جو ایسی گائے کو پچکارتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں۔ افسوس کہ موسیٰ کے امتّی تو اب تک گوسالہ پرستوں کو قتل کریں اور ان مسلمانوں کا یہ حال ہوجائے۔ پیغمبر اور آپ کے اصحاب کا طریق کہاں رہا۔ وہ نماز میں اذکار واشغال اور آدابِ عبادت کدھر گئے۔ ان لوگوں نے شریعت اور خوفِ خدا کو پیچھے ڈال دیا۔ حضرت عمر کہاں رہے کہ سختی سے امرِ معروف کرتے۔ یہ بد زبانی سن کر اس معتقد کو بہت غصّہ آیا اور اس نے بھی عورت کو خوب صلواتیں سنائیں اور اس کے بعد وہاں سے نکل کر ایک ایک سے پوچھتا پھرا کہ حضرتِ شیخ کہاں ہیں؟ ایک شخص نے خبر دی کہ وہ قطبِ زمانہ پہاڑیوں کی طرف جلانے کی لکڑی لانے گئے ہیں۔ وہ مسافر شیخ کے شوقِ نیاز میں سیدھا ادھر ہی روانہ ہوا۔ آدمی کے ہوش وحواس کے آگے شیطان وسوسہ لایا کرتا ہے جس سے چاند گرد میں چھپ جاتا ہے۔ چنانچہ راستہ چلتے چلتے اسے بھی یہ وسوسہ آیا کہ حضرت شیخ ایسی عورت کو اپنے گھر میں کیوں رکھ چھوڑا ہے۔ دو ضدوں میں باہم دگر محبّت کیسے ہوسکتی ہے اور ایسے امامِ زمانہ کے ساتھ بھی یہ شیطان موجود ہے ۔ آخرکیا معاملہ ہے؟ پھر وہ لاحول پڑھتا اور اپنے جی میں کہتا کہ شیخ پر اعتراض کرنا بہت بُرا ہے۔ غرض اِسی اُلجھن میں گرفتار چلاجارہاتھا ،کہ اُس نے دیکھا کہ شیخ نام دار ایک شیر پر سوار چلے آرہے ہیں۔ شیر پر لکڑیاں لدی تھیں اور لکڑیوں پر آپ ؒبیٹھے تھے۔ ہاتھ میں ایک سانپ بطور تازیانے کے تھا۔ آپؒ نے مرید کو دور سے دیکھا اور ہنس کر کہا اے فریب خوردہ !اِس کی بات نہ مان۔ اُن بزرگ نے اُس کے نفس کی ادھیڑپن کو پالیا اور تمام احوال ایک ایک کر کے جو کچھ اس پر گزرے تھے سب سنادیے۔اس کے بعد بیوی کی لعنت وملامت کے واقعات حضرت نے خود ہی ارشاد فرمادیئے اور کہا کہ وہ میری بیوی ہے۔ اب تو خیال کر کہ اگر میں ایک عورت کی بدزبانی پر بھی صبر نہ کرسکتا تو یہ شیرِ نر میری بیگار کیسے اٹھاتا۔

مأخذ :  

کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 212)

مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند)   1945

حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی  رحمۃاللہ علیہ کا مقام اولیائے کرام میں بہت بلند ہے۔ اپنے وقت کے معروف صوفی اور شاعر فرید الدین عطار (استاذ حافظ) نے ’’تذکرۃ اولیاء‘‘ میں شیخ کا ذکر نہایت ادب سے کیا ہے۔ انھوں نے شیخ کو ’’سلطان سلاطین مشائخ‘‘ کہا ہے ان کے علاوہ مولانا رومیؒ، فرید الدین عطارؒ، خواجہ عبداﷲ انصاریؒ، جامیؒ اور دیگر شعرا نے بہت سے اشعار عقیدت کے طور پر شیخ کے لیے کہے ہیں۔

حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی  رحمۃاللہ علیہ کے ملفوظات میں فلسفیانہ نظریات کو پیش کیا گیا ہے۔ آپ ؒ کے مریدوں نے آپؒ کی وفات کے بعد ان کے ملفوظات کو ’’نورالعلوم‘‘ کے نام سے ایک کتابی شکل میں مرتب کیا جس کا صرف ایک ہی نسخہ دستیاب ہے۔ جو برٹش میوزیم کی لائبریری میں موجود ہے۔ شیخ نے خانقاہ کے دروازے پہ لکھوا رکھا تھا کہ ’’ہر وہ شخص جو یہاں آئے گا۔ اسے کھانا دیا جائے گا۔

اِس سے اُن کے عقیدے، مسلک یا مذہب کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’’میں کوئی صوفی نہیں ہوں نہ ہی سائنس کا کوئی علم رکھتا ہوں، نہ ہی کوئی پرہیزگار انسان ہوں، اے خدا تو واحد ہے۔ میں تیری یکتائی کا حصہ ہوں۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی انسان کو خوشی اور مسرت کیسے دے سکتا ہوں کہ تیری خوشنودی اور میری روحانی خوشی اسی میں ہے۔

ایک شخص سے سوال پوچھا گیا کہ ’’تم نے خدا کو کہاں پایا؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’جب کبھی مجھے اپنا آپ نظر نہیں آیا‘‘ اس پوری کائنات میں جو کچھ ہے وہ اس کا عکس تمہارے دل میں بھی موجود ہے، تم میں اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ اسے دیکھ سکو، محسوس کر سکو، محبت خدا ہے، جو شخص کسی کی بھی محبت میں گرفتار ہوا اسے خدا مل گیا، جسے خدا مل گیا وہ اپنی ذات بھلا بیٹھا۔‘‘شیخ ابوالحسن ؒفلسفہ وحدت الوجود کے قائل تھے اور خلق خدا سے محبت کو عشق الٰہی کا زینہ جانتے تھے۔ غالبؔ کے اس مصرعے کی تشریح بھی یہی ہے یعنی

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

جب سے دنیا آباد ہوئی ہے خدا نے ہمیشہ اولیاء اور صوفیائے کرام کے ذریعے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ حیات ابدی کا مطلب ہے مرنے کے بعد بھی لوگوں کے لیے زندہ رہنا اور لوگوں میں بلا تفریق مذہب و مسلک پیار بانٹنا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام کے مزارات اور درگاہوں پہ کسی آنے والے سے اس کا مذہب، مسلک یا عقیدہ نہیں پوچھا جاتا، کہ گلاب، موتیا، چنبیلی، موگرہ اور رات کی رانی کی مسحور کن خوشبو سب کے لیے یکساں ہے۔

حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی ؒکے روحانی وظائف :

جو بچہ شرارتی ہو یا برائیوں میں مبتلا ہو یا جو نوجوان گمراہی اور گناہوں میں مبتلا ہو،یا کسی کی بہن ‘ بیٹی یا بیوی اس کی بات نہ مانتی ہو یا کسی کا باپ گناہوں کی دلدل میں دھنسا ہوبس یہ عمل کریں اور کمال دیکھیں۔

دل کو زندہ رکھنے کا عجیب و نافع نسخہ !

ایک مسلمان کو سب سے زیادہ فکر اپنے دل کو زندہ رکھنے کی کرنی چاہیے۔ زندہ دل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے، اس میں رقت ہوتی ہے، وہ آخرت کے کاموں کو ترجیح دیتا ہے اور جسم کے تمام اعضاء کو اللہ تعالیٰ کی عبادت یعنی اس کی رضا والے کاموں میں لگائے رکھتا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ دل مردہ ہو جائے تو اس پر شیطان کا قبضہ ہو جاتا ہے اور شیطان اپنی زہریلی سونڈ اس میں گھسا کر نافرمانی اور گناہ کے گندے اثرات اس میں ڈال دیتا ہے۔ یہ مردہ دل فانی دنیا کے چکر میں پڑا رہتا ہے اور غیر اللہ سے عشق کی ذلت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس کا دل زندہ اس کی آخرت زندہ، تابندہ اور سدا بہار اور جس کا دل مردہ اس کی آخرت مردہ، ویران اور عذاب زدہ دل کی زندگی کا مجرب نسخہ یہ ہے کہ فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان توجہ کے ساتھ چالیس مرتبہ یہ دعا پڑھی جائے:۔

یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ

اوّل آخر درود شریف پڑھیں۔تمام اہل محبت سے گزارش ہے کہ اس عمل کو پابندی کے ساتھ کریں۔

وصال :

 جب آپ ؒکا اس دار فانی سے رخصت ہونے کا وقت قریب آیا  تو وصیت فرمائی کہ مجھے زمین سے تیس گز نیچے دفن کرناکیونکہ یہ سر زمین بُسطام کی سر زمین سے زیادہ بلند ہے اور یہ بے ادبی کی بات ہے کہ میرا مزار حضرت بایزید بسطامی  رحمتہ  اللہ  علیہ  سے اونچا ہو جائے۔چنانچہ آپؒ کی وصیت پر عمل کیا گیا۔ آپ ؒکا وصال خرقان ہی میں 10 محرم الحرام 425ہجری میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔